لوکی کیہ کہن گے؟

عتیق انور راجہ
بچپن میں ہوش سنبھالتے ہی یہ فقرہ اکثر و بیشتر کانوں میں گونجنے لگا کہ لوکی کیہ کہن گے ‘گھر سے نکلتے ہوئے ماں جی نصیحت کرتیں کہ باہر جس سے ملو اسے اچھے انداز میں سلام کہا کرو،ابا جی فرماتے کہ اگر تم کسی سے بدکلامی کرو گے جھوٹ بولو گے تو لوکی کیہ کہن گے کہ اسکے ماں باپ نے اس کی تربیت کیسے کی ہے ۔ اپنے دوستوں کے ساتھ گھر سے باہر تھڑے پہ بیٹھ کے اگر اونچی آواز میں باتیں کرتے ،مسکراتے اور قہقہے لگاتے تو محلے کا کوئی بابا کہتا اب تم لوگ بڑے ہو رہے ہو ۔گلی سے گاوں کی مائیں بہنیں گزرتی ہیں تمہاری خوش گپیوں کو دیکھ کے گزرنے والے لوکی کیہ کہن گے ۔ کسی شادی پہ جاتے تو بڑے بھیا کا فرمان کانوں میں پڑتا اتنا ہی کھانا پلیٹ میں ڈالنا جتنا تم آسانی سے کھا لو اور خبر دار پلیٹ ساری نہ بھر لینا ورنہ لوکی کہہ کہن گے ۔ سکول میں پڑھائی میں اگر کبھی کمی کوتاہی رہ جاتی تو ماسٹر صاحب فرمانے لگتے ۔تم اچھے گھر سے ہو فیل ہو گئے تو لوکی کیہ کہن گے ۔کھیل کے میدان میں کپتان کی سرگوشی کانوں میں سنائی دیتی جوش و جذبے سے میچ جیتنے کی کوشش کرنی ہے ہار گئے تو گاوں کے لوکی کہہ کہن گے ۔ الغرض یہ جملہ سنتے سنتے جب معاملہ ہماری شادی تک آپہنچا تو والد صاحب نے پاس بٹھا کے سمجھایا کہ کچھ بھی ہوجائے نہ تو کبھی اپنی بیوی پر ہاتھ اٹھانا اور نہ ہی کسی بھی حال میں اسکے ماں باپ کو برا بھلا کہنا ورنہ لوکی کیہ کہن گے ۔شادی کے بعد تو ا ب یہ فقرہ مسلسل پیچھا کرتا ہے کہ راجہ صاحب آپ کو تو پتہ ہی کچھ نہیں ہے ۔جو فون کرتا ہے اسے ملنے چلے جاتے ہیں ۔اپنی ساری باتیں صاف صاف کہہ دیتے ہیں ۔شہر سے گزرتے بڑے بڑے کالم نگاروں ،شاعروں اور اداکاروں کو اپنے چھوٹے سے گھر چائے پہ بلا لیتے ہو ۔ اور پھر انہیں گھر سے باہر کھلی سڑک پہ چائے پیش کرنے سے بھی نہیں ہچکچاتے ۔آپ کو اس بات کی فکر ہی نہیں ہوتی ہے کہ بعد میں آپ سے ملنے آنے والے لوکی کیہ کہن گے کسی فنکشن پہ جانا ہو یا کسی تقریب میں کبھی آپ نے اپنے پہناوے کی فکر نہیں کی ہے ۔آپ کو تو احساس نہیں ہے لیکن آج کل لوگ ان باتوں کو بہت دیکھتے ہیں ۔میں تو یہ سمجھا ہوں کہ ہم زندگی میں کسی بھی مقام تک کیوں نہ پہنچ گئے ہوں، کتنی ہی تعلیم کیوں نہ حاصل کرلی ہو،کتنا بڑا مقام کیوں نہ حاصل کر لیں، ہمارے کانوں کو یہ الفاظ مسلسل سننے کی سعادت حاصل ہوتی رہے گی اس لیے کہ ہمارے اپنوں کے دماغوں کے کسی کونے میں لوگ کیا کہیں گے کا خوف ہر پل سوار رہتا ہے ۔ہر دوسرا بندہ پہلے سے بنے اچھے بھلے گھر کو توڑ پھوڑ کے نیا گھر بنانا چاہتا ہے ۔بیگمات ہر سال گھر میں نیا رنگ اور نئے پردے لگوانا چاہتی ہیں ۔ہر تقریب کیلئے نئے کپڑوں کا حصول اس قدر ضرور قرار دیا جاچکا ہے کہ بہت سے گھروںمیں اس وجہ سے لڑائیاں مار کٹائیاں اور کبھی کبھی علیحدگیاں بھی ہو رہی ہیں۔ لوکی کیہ کہن گے یہ فقرہ کہہ کے ماسیاں پھوپھیاں اور چاچیاں ہم پہ ایسا دباو ڈالتی رہتی ہیں کہ ہم اپنے خاندان کی ناک اونچی کرنے کے چکر میں اپنی انا کی بار بار قربانی دیتے رہتے ہیں ۔کبھی کسی دوست سے ادھار لے کے ،کبھی دفتر سے قرض لے کے اور کبھی ناجائز طریقے سے دولت حاصل کرنے کی کوشش کرکے ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں اس میں ویسے ہی ہماری زندگیوں کو ان گنت مسائل کا سامنا ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ جہاں تک ممکن ہو ہم یک دوسرے کو سپورٹ کریں۔ہمارے درمیان ایسا کون ہے جو لوگوں کی باتوں سے خوفزدہ نہ ہوا ہو؟چاہے معاملہ چھوٹا ہو یا بڑا، سماجی ہو یا ذاتی، ہماری زندگیاں لوگوں کی باتوں کے خوف میں گزرتی ہیں۔ یہ سچ ہے کہ ہماری سماجی زندگی ایک دوسرے پر بہت زیادہ منحصر ہے، اور اسکے قائم رہنے کیلئے یہ ضروری ہے کہ معاشرے کی جانب سے افراد پر عائد کردہ ذمہ داریاں نبھائی جائیں۔مل جل کر رہنے کے اپنے فوائد ہیں۔ لیکن لوکی کیہ کہن گے کا خوف دلا کے جن ضوابط کو ماننے کا کہا جاتا ہے، وہ بسا اوقات بہت ہی فضول اور جیب پہ بھاری معلوم ہوتے ہیں۔ ذاتی سطح پرکچھ لوگ اس ڈر سے باہر نکلنے کی ضرورت محسوس کرتے ہیں، لیکن خود آگے بڑھ کے دوسروں کیلئے مثال قائم کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔ یہ نقطہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ’لوگ’ ہم خود ہی تو ہوتے ہیں۔ بس ہم نے یہ فیصلہ کرنا ہے کہ عملی طور پر لوگوں کی ان باتوںکی جو وہ ہماری پیٹھ پیچھے کرتے ہیں بالکل بھی پرواہ نہیں کرنی ہے ۔ہمیں اس خوف کا شکار کردیا گیا کہ اگر ہم معاشرے کی توقعات کیمطابق نہ جی پائیں، تو معاشرے میں ہمارے باتیں ہوں گی۔ لوکی کیہ کہن گے اس دبا کو ختم صرف تب کیا جا سکتا ہے، جب ہم سب اپنے اپنے ذہن کھولیں، اور اپنی حثیت اور گنجائش کیمطابق زندگی گزارنے کی کوشش کرنا شروع کردینگے۔